تاریخ حدیث شریف
|
|
hamaraorangi | Date: Thursday, 19-Feb-2009, 10:00 AM | Message # 16 |
 Admin
Group: Administrators
Messages: 73
Status: Offline
| ایک اور مثال اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ قبر پرستی انسانی سوسائٹی میں ایک عام مرض رہا ہے۔ عرب میں بھی اسلام سے پہلے اس کا رواج تھا، آج بھی ہم میں پایا جاتا ہے۔ غالباً اس کو روکنے کی غرض سے (تاکہ آدمی قبر میں سونے والوں سے مانگنے کی بجائے خدا سے مانگے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت ہی کی ممانعت فرمادی۔ کچھ عرصہ بعد ان الفاظ کے ساتھ اس کی مکرر اجازت دے دی۔ "کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور الا فزوروھا" (میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، سنو! اب تم زیارت کرسکتے ہو) اس دوسرے حکم کی وجہ یہ نہیں تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے بدل گئ بلکہ یہ کہ سیاق و سباق بدل گیا۔ قبر پرستی سے بے شک روکنا چاہتے تھے لیکن قبرستان میں جانے سے جو عبرت ہوتی ہے، یعنی ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں بھی ایک روز مرنا ہے تو کیا ہمیں اس کے لیے تیار نہیں ہونا چاہیے؟ کیا ہمیں جھوٹ، دغابازی اور فریب وغیرہ پر ہی قائم رہنا چاہیے؟ تو عبرت حاصل کرنے کی خاطر آپ نے اجازت دے دی۔ غرض حدیث میں اختلاف ایک طرف فرقہ وارانہ ہے اور دوسری طرف ایک فرقے کے اندر بھی ہے۔ ان دشواریوں کو دور کرنے کے لیے ماہرین علم حدیث نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اس کو انہوں نے مختلف تدبیروں کے ذریعہ سے حل کیا، مثلاً ایک خصوصیت جو مسلمانوں ہی میں پائ جاتی ہے دوسری قوموں میں عملاً غیر موجود ہے وہ یہ کہ حوالہ نامکمل نہ ہو۔ مثلاً میں آج سے چودہ سو برس پہلے کی ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یوں کرو یہ نامکمل حوالہ ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر میں بیان کروں کہ میرے استاد "الف" نے کہا کہ اسے اس کے استاد "ب" نے "ج" نے اس طرح تمام استادوں کا نسلاً بعد نسل ذکر کرتے ہوئے کہوں کہ آخری استاد فلاں صحابی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے تو وہ حوالہ مکمل ہوگا۔ چنانچہ حدیث کی کتابوں میں ہر آدھی سطر یا ایک سطر کی جو حدیث ہوتی ہے، اس کے شروع میں ایک لمبی فہرست ہوتی ہے کہ عن فلاں، عن فلاں عن فلاں۔ مثلاً بخاری جو قدیم ترین مؤلفوں میں سے ایک ہیں، ان کی حدیثیں بعض دفعہ تین درمیانی راویوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی ہیں اور زیادہ سے زیادہ نو تک۔ گویا ڈھائ تین سو سال کے عرصے میں نو پشتیں راویوں کی آچکی تھیں۔ اس بات کی تحقیق کے لیے کہ حوالہ مکمل ہے یا نہیں، یہ ضروری ہے کہ ہمارے سامنے ایسی کتب ہوں جن میں ہر راوی کی سوانح موجود ہو۔ مثلاً یہ بیان کیا جائے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد "الف" "ب" "ج" تھے اور پھر میرے سامنے ایک روایت آتی ہے جس میں عن فلاں ، عن فلاں، عن فلاں، کرتے ہوئے مثلاً "ب" یا "ج" نامی شخص بیان کرتا ہے کہ "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا" تو اس کتاب کی مدد سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چونکہ یہ سب راوی ثقہ ہیں اور استاد شاگرد رہے ہیں، اس لیے یہ روایت قابل قبول ہے، یہ بھی کہ ہر ایک کا ذاتی کردار کیسا تھا۔ یا اس کا حافظہ اچھا تھا یا نہیں، یہ بھی کہ اس کے استاد کون کون تھے۔ اور شاگرد کون کون تھے، تاکہ اس قسم کی سوانح عمریوں کی مدد سے ہم استاد کو جانچ سکیں اور یہ معلوم کرسکیں کہ راویوں کی تاریخ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ واقعی صحیح ہے یا فرضی ہے۔ اس کے بعد علم اصول حدیث وجود میں آیا، جس میں یہ بیان کیا جانے لگا کہ اگر حدیثوں میں ایسی باتیں نظر آئیں جو خلاف عقل ہوں یا حدیثوں میں فلاں فلاں عیب یا کمی ہو، تو ایسی صورتوں میں ہم کیا کریں؟ کس طرح ان گتھیوں کو سلجھائیں! چنانچہ روایت اور درایت کے دو اصول مسلمانوں نے اختیار کیے۔ روایت کے اصول کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ حدیث کو بیان کرتے ہیں آیا وہ بیان کرنے والے فرضی ہیں یا حقیقی، قابل اعتماد ہیں یا جھوٹ بولنے والے ہیں۔ استاد شاگرد ہیں یا نہیں؟ یہ روایتاً حدیث کو کنٹرول کرنے یا جانچنے کا طریقہ ہے۔ درایت کے اصول کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ حدیث میں جو بات بیان کی گئ ہے وہ عقلاً درست ہے یا نہیں۔ فرض کیجئے ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ مثلاً شہر بہاولپور میں فلاں چیز ہوگی۔ لیکن درایتاً اس زمانے میں شہر بہاولپور موجود تھا ہی نہیں، یہ ذکر کیسے آیا۔ لہٰذا ہم یہ نتیجہ اخذ کری گے کہ غالباً یہ سہو کتاب ہے، یا یہ کہ حدیث جعلی ہے اس شہر کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہاولپور بیان نہ کیا ہوگا، بلکہ اور لفظ ہوگا جو بگڑ کر بہاولپور بن گیا۔ یہ اور اس طرح کی چیزیں ہم درایت سے معلوم کرسکتے ہیں اور ان اصولوں کے مطابق ہم ان دشواریوں کو حل کرسکتے ہیں جو حدیث کے اندر نظر آتی ہیں۔
ہمارا اورنگی پیارا اورنگی
|
|
|
|
hamaraorangi | Date: Thursday, 19-Feb-2009, 10:01 AM | Message # 17 |
 Admin
Group: Administrators
Messages: 73
Status: Offline
| اسی طرح دو حدیثوں میں اختلاف کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایک میں کہا گیا ہے کہ یہ کام کرو، دوسری میں ہے کہ نہ کرو۔ تو ان دشواریوں کو جن طریقوں سے دور کیا جاسکتا ہے، وہ "علم اصول حدیث" کی کتابوں میں ملتا ہے۔ مثلاً یہ بات ممکن ہے کہ ایک حکم قدیم ہو، دوسرا حکم جدید ہو تو جدید ترین حکم قدیم حکم کو منسوخ کردے گا۔ یا یہ کہ ایک حکم خاص ہے، دوسرا حکم عام ہے۔ ایک شخص کو یہ کہا گیا کہ یوں کرو یا یوں نہ کرو اور دوسرے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ تم یہ کام کرسکتے ہو۔ ایک مثال ذہن میں آتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک شکایت کی کہ مدینہ کی آب و ہوا ہمیں موافق نہیں آرہی ہے، ہم فلاں فلاں بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، سرکاری جانوروں کے ریوڑ میں جاکر رہو اور سرکاری اونٹوں اور اونٹنیوں کے دودھ اور ان کے پیشاب پیو۔ بظاہر یہ بات ہمیں حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ پیشاب پینے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے، جب کہ وہ نجس چیز ہے۔ اس مشکل کا حل ہمیں اصول روایت یا درایت کے ذریعے ملتا ہے اور یہ ٹیکنیکل چیز بھی ہے جو میری آپ کی رائے پر مبنی نہیں، بلکہ طبیبوں اور ڈاکٹروں کی رائے پرمبنی ہوگی۔ مثلاً زہر ہمارے لیے سم قاتل ہے لیکن ایک ڈاکٹر کسی خاص بیماری میں مریض کے لیے زہر ہی تجویز کرتا ہے۔ زہر کے بغیر اس کا کوئ علاج ممکن نہیں۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئ خاص بیماری اونٹوں کے پیشاب کے بغیر دور نہ ہوسکتی ہو۔ جب کوئ اور چارہ کار نہ ہوتو ممنوع اور مکروہ چیزیں جائز ہوجاتی ہیں۔ اونٹنیوں کے پیشاب کے متعلق بعض ہمعصر سیاح بیان کرتے ہیں کہ وہ آج بھی بعض بدوی قبائل میں کچھ مخصوص بیمارییوں کے علاج کے لیے مستعمل ہے۔ غرض مختلف طریقے ہیں جن کے ذریعے ہم حدیثوں کی اندرونی دشواریوں کو دور کرسکتے ہیں اور اس سے ہمارے علماء غافل نہیں رہے۔ گزشتہ چودہ سو سال سے وہ اس پر توجہ کرتے رہے ہیں اور ہم آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدیثوں کی صحت کو جانچنے کا جو وسیلہ یا طریقہ ہمارے پاس ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی اور قوم میں نہیں پایا جاتا۔ میں اپنے عیسائ بھائیوں کو ناراض کیے بغیر یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی انجیل پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا، جتنا ہماری بخاری، مسلم اور ترمذی پر کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ انجیل کی تدوین، انجیل کا تحفظ، انجیل کا نسل بعد نسل منتقل ہونا، اس طریقے سے عمل میں نہیں آیا جس طریقے سے حدیث کی کتابوں میں عمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تین سو سال بعد تک انجیلوں کے متعلق ہمیں کوئ علم نہیں کہ کس نے اس کو لکھا، کس نے اس کا ترجمہ کیا اور کس نے اسے نقل کیا، اصل زبان سے یونانی زبان میں کس کے حکم سے منتقل کیا گیا۔ آیا کاتبوں نے صحت کا التزام رکھا یا نہیں۔ تین سو سال بعد چار انجیلوں کا ذکر ہمیں پہلی مرتبہ ملتا ہے۔ کیا ہم ایسی بلاسند کتاب پر اعتماد کریں یا بخاری پر جو ہر دوسطری بیان کو بھی تین سے لے کر حوالوں تک بیان کرتا ہے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان کیا ہے۔ لیکن اس کا ثبوت کیا ہے کہ بخاری نے سچ بیان کیا ہو، ممکن ہے کہ انہوں نے گھڑ لیا ہو اور راویوں سے منسوب کردیا ہو کہ مجھے "الف" نے "ب" سے اور "ب" نے "د" سے، اسی طرح رسول اللہ تک پہنچا ہو۔ اعتراض عقلاً بالکل صحیح ہے لیکن حقیقتاً بے بنیاد اعتراض ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بخاری سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جن محدثین نے حدیث کی روایت کی ہے ان کی کتابیں بھی ہمیں موجود ملتی ہیں۔ لہٰذا بخاری پر ہمیں شبہ کرنے کی کوئ وجہ نہیں نظر آتی۔ مثال کے طور پر بخاری کہتے ہیں مجھے یہ حدیث امام احمد بن حنبل رح نے بیان کی اور کہا کہ مجھے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کی جنہوں نے کہا کہ میرے استاد معمر نے بیان کیا تھا۔ معمر نے کہا کہ مجھے میرے استاد ہمام بن منبہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سن کر بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا ہے۔ بخاری کی کتاب ہمارے پاس موجود ہے۔
ہمارا اورنگی پیارا اورنگی
|
|
|
|
hamaraorangi | Date: Thursday, 19-Feb-2009, 10:01 AM | Message # 18 |
 Admin
Group: Administrators
Messages: 73
Status: Offline
| درمیانی روایتوں کا ہمارے پاس کوئ وجود نہ ہو تو ہم علمی نقطہ نظر سے فرض کرسکتے ہیں کہ شاید امام بخاری نے جھوٹ کہا ہو۔ لیکن اگر ہمیں احمد حنبل کی کتاب مل جائے جو امام بخاری کے استاد ہیں اور اس میں من و عن وہی حدیث انہی الفاظ مین ایک شوشے کے فرق کے بغیر ملے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ امام بخاری جھوٹے نہیں، کیونکہ احمد بن حنبل کے پاس واقعی وہی حدیث انہیں الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ امام احمد بن حنبل پر ہم شبہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت جب کہ ان کا بیان ہے کہ مجھے عبدالرزاق بن ہمام رح نے بیان کیا تھا اور عبدالرزاق بن ہمام کی کتاب موجود نہ ہو۔ الحمد اللہ! احمد بن حنبل کی "مسند" کی طرح عبدالرزاق بن ہمام کی "مصنف" بھی دنیا میں موجود ہے۔ اب چھپ کر شائع ہوچکی ہے۔ بعض حدیثوں کے متعلق تلاش کیا گیا کہ یہ کہاں ہیں، وہ بھی بالکل انہی الفاظ میں بیان کرتے ہیں جن الفاظ میں بخاری کے ہاں ہے۔ اسی طرح ان کے استاد معمر بن راشد کی کتاب "الجامع" ہمیں مل گئ ہے۔ اس کے اندر بھی وہی حدیث جو بخاری نے بیان کی تھی انہیں الفاظ میں موجود ہے۔ اسی طرح ان کے استاد ہمام بن منبہ کا "صحیفہ" بھی دستیاب ہوچکا ہے اور چھپ چکا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری نے جو چیزیں بیان کیں وہ بالکل صحیح ہیں، کیونکہ ان کی کتابیں جو بخاری کا ماخذ ہیں دستیاب ہوچکی ہیں اور ان کے اندر وہی الفاظ موجود ہیں۔ ان حالات میں عقل کہتی ہے کہ بے وجہ شبہ کرنا نامناسب بات ہے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرلیں کہ امام بخاری رح کی بیان کردہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ پھر کچھ چیزیں ایسی ملتی ہیں جن سے ایک دوسرے کی تصدیق ہوئ ہ۔ مثلا ایک دوسرے سلسلسہ اسناد سے امام ترمذی رح نے وہی حدیث بیان کی ہے تو یہ ناممکن ہے کہ پچاس آدمی جو مختلف ادوار سے متعلق ہیں، جھوٹ پر پیشگی متفق ہوگئے ہوں۔ غرض یہ ٹیکنیکی اصول ہیں جن کا استعمال حدیث کے متعلق کیا گیا ہے اور دنیا کی کوئ کتاب حتیٰ کہ مقدس ترین کتب توریت، انجیل وغیرہ میں بھی التزام صحت کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جتنا حدیث کے متعلق ہمیں ملتا ہے۔ اصولاً یہ بیان صحیح ہے کہ حدیث کی کتابوں میں جو سنیوں کی حدیثیں ہیں اور جو شیعوں کی حدیثیں ہیں، ان میں اختلاف ہو۔ لیکن عملاً ایسا نظر آتا ہے کہ مفروضہ ہی ہے۔ راویوں کا بے شک فرق ہے۔ مثلاً میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت پر ایک چیز بیان کرتا ہوں، وہی بات میرا شیعہ بھائ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت پر بیان کرتا ہے، تو یہ مفروضہ کہ شیعہ سنی کی ساری حدیثوں میں فرق ہے، غلط ہے۔ فرق صرف روایت کرنے والوں میں ہے، حدیث کے مندرجات میں فرق نہیں ہے۔ تضاد شاذ و نادر ہوگا۔ اب تک کوئ ایسی خاص چیز ملی بھی نہیں، جس سے یہ کہا جائے کہ شیعہ کتابوں میں الف، چیز کا حکم ہے اور سنی کتابوں میں اس کے بالکل برعکس الف، کی ممانعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اختلافی باتیں جو ہمیں نظر آسکتی ہیں ان کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ سنی خاص کر حنفی، شافعی اور حنبلی نمازوں میں ہاتھوں کو سینے پر باندھتے ہیں اور ہمارے شیعہ بھائ ہاتھوں کو چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔ یہ اس لیے نہیں کہ حدیثوں میں اختلاف ہے بلکہ اس لیے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی۔ بعض اوقات ہاتھ چھوڑ کر پڑھی۔ یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے مثلاً فرض کیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ میں زخمی ہوگئے اور ہاتھ باندھ نہیں سکتے تھے، کیا کریں، ہاتھ چھوڑ کر ہی پڑھیں گے۔ ایک شخص نے دیکھا کہ رسول اللہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر اسے موقع نہیں ملا کہ کچھ عرصہ بعد دیکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ رہے ہیں تو وہ اسی سنت پر عمل کرے گا جس کو وہ دیکھ چکا ہے۔ یہ چیز ایک پہلو سے ہمارے لیے اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ میرے استاد نے آج سے کوئ ساٹھ پینسٹھ سال پہلے پرائمری اسکول میں یہ نکتہ بیان کیا تھا، جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا کہ اللہ کو اپنے حبیب سے جو محبت تھی، اس کی خاطر اللہ نے چاہا کہ اپنے حبیب کی ہر ہر حرکت کو قیامت تک محفوظ رکھے، لہٰذا چند لوگوں کے ذریعہ سے مثلاً شیعہ فرقے کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حرکت محفوظ کرلی گئ۔ کہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری حرکت ایک دوسرے گروہ کے ذریعے سے اللہ نے قیامت تک کے لیے محفوظ رکھی۔ اس طرح جو اختلاف عمل میں نظر آتا ہے وہ حدیث کی غلطی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مختلف زمانوں کے عملوں اور حرکتوں پر مبنی ہے۔ اس لیے ہمیں باہم ایک دوسرے کا متحمل ہونا چاہیے۔ حدیث کے اختلاف پر جھگڑنے کی جگہ یہ فرض کرنا چاہیے کہ اس خاص صورتحال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا۔ دوسری صورتحال (context) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا حکم دیا۔ ایک دوسری مثال لیجئے، جس کا آج کل اخباروں میں بھی ذکر آتا ہے یعنی "چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنا" سنیوں کے ہاں پہنچے سے ہاتھ کاٹنے کا ذکر ملتا ہے اور شیعوں کے ہاں ہاتھ کی صرف انگلیاں کاٹنے کا ذکر ملتا ہے۔ مگر یہ خیال نہ کیجئے کہ حدیثوں میں اختلاف ہے، بلکہ سنیوں کے ہاں کی حدیثوں میں بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف انگلیوں کو کٹوایا تھا۔ تو ان حالات میں بجائے اس کے کہ اسے فرقہ واری اختلاف قرار دیں ہم ایک دوسرے کا تحمل کریں اور حدیث پر اپنے فرقے کے بیان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں، جو ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔ یہ نہیں کہ ان اختلافات کو دور کرنے کی لاحاصل کوشش کریں جو کبھی دور نہیں ہوسکتے۔ __________________
ہمارا اورنگی پیارا اورنگی
|
|
|
|
hamaraorangi | Date: Thursday, 19-Feb-2009, 10:02 AM | Message # 19 |
 Admin
Group: Administrators
Messages: 73
Status: Offline
| سوال2: یہ سوال مکرر ہے کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی؟ حدیث سے ثابت کریں؟ جواب: امام مالک رح کی کتابیں آپ پڑھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ وہ اس کا ذکر کرتے ہیں اور وہ حدیث کی بناء پر کرتے ہیں۔ جب کہ امام مالک رح خود سنیوں ہی کے ایک امام ہیں اور مالکی مذہب کے بانی ہیں۔ یہ لوگ بھی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔ سوال3: جو حدیثوں کا رجسٹر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیار کیا تھا وہ کب تک موجود رہا اور کب ضائع ہوا؟ جواب: مجھے اس کا کوئ علم نہیں۔ صرف یہ حدیث بیان ہوئ ہے کہ انہوں نے ایک مجموعہ تیار کیا تھا اور اسے اپنے شاگردوں تک پہنچایا تھا اور وہ کب ضائع ہوا، اس کا مجھے علم نہیں۔ سوال4: کیا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے جب کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ میں حدیثیں کافی بیان کرتا ہوں مگر عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے زیادہ جانتے تھے کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ جواب: اس میں کوئ تضاد نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ صرف عربی لکھنا جانتے تھے بلکہ وہ حبشی زبان بھی جانتے تھے، فارسی زبان بھی جانتے تھے، کئ زبانیں جانتے تے۔ گویا بہت عالم شخص تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے لکھنا شروع کیا، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بعد میں اس کا خیال آیا۔ ظاہر ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حدیثوں کا زیادہ ذخیرہ تحریری صورت میں جمع ہوگیا اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان حدیثوں کو جانتے تھے لیکن تحریری صورت میں نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکی مسلمان ہوئے ہیں۔ لازمی بات ہے کہ وہ شخص جو شروع سے لکھتا رہا ہو اس کے پاس حدیثیں زیادہ ہوں گی اور وہ شخص جسے لکھنے سے تو خوب واقفیت ہے لیکن دیر سے حدیثیں لکھنے کا موقع ملا، اس کے پاس حدیثیں کم ہوں گی۔ ان دونوں باتوں میں کوئ تضاد نہیں۔
ہمارا اورنگی پیارا اورنگی
|
|
|
|
hamaraorangi | Date: Thursday, 19-Feb-2009, 10:03 AM | Message # 20 |
 Admin
Group: Administrators
Messages: 73
Status: Offline
| سوال5: آپ نے ابھی اپنے خطبہ میں فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے سوال کے جواب میں فرمایا، خدا کی قسم! جو کچھ میری زبان سے نکلتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں بولتے جب کہ بعض علماء کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ یعنی ان کی ہر بات درست نہیں، وضاحت فرمائیں؟ جواب: میں واضح کرچکا ہوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی و الہام سے کوئ چیز معلوم ہوچکی ہو اور وہ بیان کریں گے تو وحی پر مبنی ہوگی۔ لیکن وحی ابھی آئ نہیں ہے، وحی کے انتظار میں ہیں، فوری معاملہ درپیش ہے تو اجتہاد کریں گے۔ یعنی اپنی رائے سے کوئ حکم دیں گے اور اس کے متعلق وہ حدیث ملتی ہے کہ اگر مجھے وحی آچکی ہوتی تو میں تم لوگوں سے مشورہ نہ کرتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض وقت وحی کا انتظار رہتا تھا اور فوری ضرورتوں سے وہ خود اجتہاد کرکے اپنے فہم و فراست سے احکام دیا کرتے تھے اور ان احکام میں بعض وقت وحی کے ذریعہ سے تنسیخ بھی ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں یہ مثال ملاحظہ ہوکہ جنگ کے قیدیوں سے کیا برتاؤ کیا جائے؟ جنگ بدر کے موقع پر یہ معاملہ پیش آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وحی کی غیر موجوگی میں اور انتظار میں صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشورہ دیا کہ ان سب کا سرقلم کردیا جائے، یہ کبھی مسلمان نہیں ہوں گے۔ اسلام کے ازلی وہ ابدی دشمن ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں، آج وہ مسلمان نہ ہوں لیکن ممکن ہے ان کے بچوں میں سے کوئ مسلمان ہوجائے۔ میری رائے میں ان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری دوسری ضرورتیں ہیں، انہیں فدیہ لیکر رہا کردیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے کو قبول کیا اور وہی حکم دیا کہ انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ فدیہ لیا جائے۔ اللہ کو یہ بات پسند نہ آئ۔ فرمایا "لو لا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم" (اگر پہلے ہی سے اللہ اس کا فیصلہ نہ کرچکا ہوتا (کہ اس پرانے قانون کو بدلا جائے) تو تم جو فدیہ لے رہے ہو اس پر تم لوگوں کو سخت سزا دی جاتی) آپ دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی غیر موجودگی میں بعض اوقات انسانی ضروتوں سے اور انسانی طریقہ سے مشورے کے ساتھ یا بغیر مشورے کے اپنی صوابدید کی بناء پر احکام دیا کرتے تھے اور بعض وقت وہ اللہ کو پسند نہیں آتا تھا۔ اس وقت فوراً تنسیخ کی وحی آجاتی تھی تاکہ امت غلط چیزوں پر عمل نہ کرے۔ اس واقعے کی تھوڑی سی توجیہ میں اور کروں گا۔ قرآن مجید میں ایسی آیتیں ہیں جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ پرانے انبیاء کی شریعت پر عمل کرو۔ توریت میں حکم دیا گیا ہے کہ دشمن سے لیے ہوئے مال غنیمت کو جلاڈالو۔ وہ خدا کا مال ہے، خدا تک پہنچانے کے لیے تم اس کو جلا ڈالو۔ تم اس سے استفادہ نہ کرو۔ جب کوئ نئ وحی نہیں آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ تھا کہ اس پرانے خدائ قانون یعنی توریت پر عمل کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مصلحت سے اس پر عمل نہیں فرمایا، اس سے خدا نے وہ آیت نازل کی "لو لا کتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب عظیم" (اگر پہلے ہی سے اللہ اس کا فیصلہ نہ کرچکا ہوتا (کہ اس پرانے قانون کو بدلا جائے) تو تم جو فدیہ لے رہے ہو اس پر تم لوگوں کو سخت سزا دی جاتی) بہر حال ان دونوں میں کوئ اختلاف نہیں ہے۔ اس حدیث کو کہ میری زبان سے میرے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ برحق ہوتی ہے، اس معنی میں لیں کہ اولاً یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے ذریعے معلوم کردہ چیزوں کو بیان کرتے ہیں۔ یا بشری حیثیت سےبھی بیان کرتے ہیں، عمداً کسی کو بھٹکانے یا گمراہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ جو چیز مناسب ترین ہے اور جس کی خدا نے ممانعت نہیں کی ہے اس کا حکم دیتے ہیں۔ ان دونوں میں کوئ تضاد نہیں رہتا۔ ضمنی طور پر ایک سوال ہے کہ ہم حدیث کے صحیح ہونے کا اندازہ کس طرح لگائیں؟ اس کا جواب میں دے چکا ہوں کہ علمائے حدیث نے مختلف علوم اختراع کیے ہیں جن سے حدیث کی روایتہً اور درایتہً دونوں طرح سے جانچ ہوسکتی ہے اور ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ کس حدیث پر اعتماد کیا جائے اور کس حدیث پر اعتماد نہ کیا جائے۔ سوال 6: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس صحابی کو "استعن بیمینک" کے الفاظ فرمائے تھے ان صحابی کا اسم گرامی کیا ہے؟ جواب: میں بیان کرچکا ہوں کہ صحابی کا نام حدیث میں مذکور نہیں۔ ایک صحابی آئے، انہوں نے کہا میں بھول جایا کرتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا "استعن بیمینک" چونکہ ماخذ میں نام درج نہیں، اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں آپ کو نام بتاسکوں البتہ ابو رافع کے متعلق بھی ذکر آیا ہے اور میں عرض کرچکا ہوں کہ وہ ایک آزاد شدہ غلام تھے انہیں بھی یہ دقت پیش آتی تھی کہ وہ بھول جاتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا میں آپ کی بیان کردہ چیزوں کو لکھ سکتا ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے دائیں ہاتھ سے مددلو۔ یعنی لکھ لیا کرو۔
ہمارا اورنگی پیارا اورنگی
|
|
|
|
hamaraorangi | Date: Thursday, 19-Feb-2009, 10:03 AM | Message # 21 |
 Admin
Group: Administrators
Messages: 73
Status: Offline
| سوال 7: جو حضرات غلط قسم کا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ احادیث کو تین سو سال بعد مدون کیا گیا وہ کیا دلیل پیش کرتے ہیں؟ جواب: وہ دلیل یہ ہے کہ ان کے نزدیک اولاً صحیح بخاری جو تیسری صدی کی تالیف ہے وہ حدیث کی قدیم ترین کتاب ہے لیکن بخاری سے لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جو دور گزرے ہیں اور امام بخاری رح کے استاد اور استاد کے استاد، انہوں نے حدیث کو تحریری صورت کبھی نہ دی۔ لیکن اب ان سب کی کتابیں بڑی حد تک دستیاب ہوچکی ہیں۔ اس لیے وہ پرانا اعتراض جو گولڈ سہیر Goldzeir نے کیا تھا باقی نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا لطیفہ میں آپ سے بیان کرتا ہوں۔ کوئ چار پانچ سال کا عرصہ ہوا، میں نے جرمن زبان میں ایک مضمون لکھا تھا جو جرمنی کے ایک رسالے میں شائع ہوا۔ اس میں یہی بات بیان کی گئ تھی کہ حدیث کے متعلق یہ تصور کہ وہ تین سو سال بعد مدون ہونا شروع ہوئ، فلاں فلاں اسباب سے صحیح نہیں۔ مضمون چھپنے کے کوئ چھ آٹھ مہینے کے بعد ایک جرمن پروفیسر نے اس موضوع پر ایک نیا مضمون لکھا، اور وہی پرانی دلیلیں اس میں دہرائیں کہ حدیث ناقابل اعتماد ہے، وہ تین سو سال بعد جمع ہونی شروع ہوئ۔ میرا اصول رہا ہے کہ کسی پر اعتراض نہ کروں، واقعات کو اس طرح پیش کروں کہ لوگ اپنے ممکنہ اعتراض کا جواب خود ہی پالیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب یہ دوسرا مضمون چھپنے کے لیے آیا، اسے بھی شائع کردیا گیا ایڈیٹر نے فٹ نوڈ دیا کہ صاحب مضمون کو چاہیے کہ فلاں نمبر میں شائع شدہ، حمید اللہ کے مضمون کو پڑھ لے۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کون سا اصول بہتر ہے۔ سوال8: امام مہدی رح کے بارے میں متعارض احادیث کا کیا حل ہے؟ جواب: مجھے کوئ علم نہیں کہ کیا متعارض حدیثیں ہیں۔ حدیث کی کتابوں میں ذکر آیا ہے کہ آخری زمانے میں میری امت سے ایک شخص پیدا ہوگا، جس کا نام میرے ہی نام کے مطابق ہوگا، یعنی "محمد" اس کے باپ کا نام میرے باپ ہی کے نام کے مطابق ہوگا یعنی "عبداللہ" اس کی ماں کا نام میری ہی ماں کے نام کے مطابق ہوگا یعنی "آمنہ" اور وہ یہ یہ کام کرے گا۔ میرے علم میں ایسی کوئ حدیثیں نہیں ہیں کہ انہیں متعارض کہا جائے۔ البتہ حدیث میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ فلاں سال پیدا ہوں گے، کب ہوں گے؟ ہمیں کوئ پتہ نہیں۔ جب بھی آئیں گے اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے تاکہ امام مہدی رح کے اچھے رفیق بننے کا شرف حاصل ہوسکے۔ سوال9: حدیث قدسی چونکہ خدائے پاک کے الفاظ ہیں تو حدیث قدسی کو قرآن پاک میں کیوں نہیں شامل کیا گیا؟ وضاحت کریں۔ جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہیں سمجھا، یہی اصل جواب ہے کیونکہ ضرورت نہیں تھی کہ قرآن مجید کو ایک لا محدود کتاب بنایا جائے۔ بہتر یہی ہے کہ قرآن مجید مختصر ہو۔ ساری ضرورت کی چیزیں اس کے اندر ہوں اور وقتاً فوقتاً اس پر زور دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر چیزیں بیان کریں جو حدیث میں بھی آئی ہیں اور حدیث قدسی میں بھی۔ اس سے ہم استفادہ کرسکتے ہیں لیکن اس کو قرآن میں شامل کرنے کی ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس نہیں فرمائ۔ حدیث قدسی کی جو کتابیں ہیں ان میں کوئ چیز ایسی نہیں ہے جو قرآن پر اضافہ سمجھی جاسکتی ہے، بلکہ قرآن ہی کی بعض باتوں کو دوسرے الفاظ میں زور دے کر بیان کیا گیا ہے۔
ہمارا اورنگی پیارا اورنگی
|
|
|
|
hamaraorangi | Date: Thursday, 19-Feb-2009, 10:04 AM | Message # 22 |
 Admin
Group: Administrators
Messages: 73
Status: Offline
| سوال10: آپ نے تقریر میں فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انشورنس کا نظام رائج تھا۔ ذرا وضاحت فرمائیں کہ کیا موجودہ انشورنس کے نظام میں اور اس انشورنس میں کیا فرق ہے؟ کیونکہ موجودہ انشورنس کے نظام کو غیر شرعی کہا جاتا ہے۔ جواب: زمانہ حال میں دوطرح کے بیمے یا انشورنس ہے ایک سرمایہ دارانہ Capitalist انشورنس اور دوسرے کو تعاونی Mutualist انشورنس کہتے ہیں۔ Capitalist میں سرمایہ دار انشورنس کمپنیاں قائم کرتے ہیں اور Clients سے اتنی رقم لیتے ہیں جو انشورنس کے متوقع ہرجانوں سے کچھ زیادہ ہو۔ گویا پوری منفعت سرمایہ دار لے لیتے ہیں۔ Mutualist سسٹم میں Clients منفعت میں شریک ہوتے ہیں۔ مثلاً موٹر کار کی انشورنس کمپنی کو لیجئے۔ پانچ سو آدمی اس کے ممبر بنتے ہیں اور ہر شخص ہر سال ایک سو روپیہ ادا کرتا ہے۔ اگر کمپنی کو پہلے سال پچاس ہزار روپے کی آمدنی ہوئ جب کہ ایک ممبر کے حادثے کا معاوضہ دوہزار روپے دینا پڑا۔ اس کے علاوہ دس ہزار روپے ملازمین کو تنخواہوں کے لیے دینے پڑے اور باقی رقم محفوظ رہی۔ دوسرے سال پرانے ممبروں سے سو سوپے کی جگہ کچھ کم رقم لی جاتی ہے۔ Capitalist انشورنس میں پوری منفعت سرمایہ دار لیتے ہیں۔ Mutualist سسٹم میں Clients کو استفادے کا موقع ملتا ہے۔ عہد نبوی میں جو انشورنس کا نظام تھا وہ Mutualist سے کچھ قریبی مشابہت رکھتا ہے۔ وہ حقیقت میں ایک دوسرے کے تعاون اور امداد باہمی کے اصول پر مبنی تھا۔ یعنی ایک قبیلہ کے جملہ افراد اپنے قبیلے کی انجمن کے خزانے کو سالانہ تھوڑی تھوڑی رقم دیتے ہیں۔ مثلاً ہر شخص ایک درہم، دو درہم دیتا ہے اور جب کبھی کوئ حادثہ پیش آتا ہے تو کمیٹی کا یہ سرمایہ جو سارے افراد قبیلہ کی طرف سے آیا تھا، اس شخص کی ضرورت کے لیے کام آتا تھا جسے ہرجانہ ادا کرنا ہے پھر اس میں Mutualist سسٹم کو بڑھا کر یہ نظام قائم کیا گیا تھا کہ اگر ایک قبیلہ کے خزانے میں رقم کافی نہ ہوتو اس کے ہمسائے میں جو کمیٹی ہے وہ بھی اس کی مدد کرے اور بالآخر حکومت مدد کرے۔ یہ دو مختلف سسٹم رہے ہیں ظاہر ہے کہ اس ٹیکنیکل چیز کو میں چند الفاظ میں پوری طرح واضح نہیں کرسکتا۔ سوال11: کیا غلطی تسلیم کرنے کے بعد احادیث کی روشنی میں انتقام، سزا، جرمانہ، ضروری ہے یا معاف کردینا اسلام کے اصولوں کے منافی ہے؟ جواب ضرور دیں التجا ہے۔ جواب: مجھے اعتراف ہے کہ میں آپ کا مفہوم پوری طرح نہیں سمجھ سکا۔ یہاں لفظ "غلطی" سے جرم مراد لیتا ہوں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ بعض جرم ایسے ہیں جن کے لیے شریعت نے سزا مقرر کردی ہے، اسے حد کہا جاتا ہے، مثلاً چوری، مئے نوشی اور قتل وغیرہ۔ یہ سات آٹھ جرائم ہیں جن کے لیے حد مقرر ہے۔ ان پر معافی مانگنے کے باوجود سزا معاف نہیں ہوتی۔ مثلائ کوئ چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، چاہے وہ معافی مانگ لیے۔ قتل کے سلسلے میں قاضی سزائے موت تو دے گا لیکن سزائے موت کا نفاذ مقتول کے قریبی رشتہ داروں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وہ خون کی جگہ خون بہا لیکر اس ملزم کو چھوڑ دیں۔ یہ ساری تفصیلیں حدیث اور فقہ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔
ہمارا اورنگی پیارا اورنگی
|
|
|
|
hamaraorangi | Date: Thursday, 19-Feb-2009, 10:04 AM | Message # 23 |
 Admin
Group: Administrators
Messages: 73
Status: Offline
| سوال12: قرآن نظم اور معنی دونوں کا مجموعہ ہے، جب کہ حدیث صرف قول رسول ، فعل رسول، تقریر رسول کا نام ہے، اگرچہ قول رسول کا ترجمہ کسی اور نے کیا ہو۔ تو حدیث کے قرآن سے برابر ہونے کے کیا معنی ہیں؟ جواب: پہلے میں کافی وضاحت سے بیان کرنے کی کوشش کرچکا ہوں۔ اس کو مختصراً پھر دہراتا ہوں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک شخص یہ کہے کہ یا رسول اللہ یہ قرآن ہے، اس پر عمل کرتا ہوں لیکن اپنے آپ کو حدیثوں کا پابند نہیں کرتا۔ تو ایسے شخص کو مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا اسے امت سے خارج کردیا جائے گا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ حدیث کے ثابت کرنے کا وہ وسیلہ نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں روبرو ہوکر، شخصی طور پر سننے میں ہوتا تھا۔ حدیث کی تدوین، تحفظ اور نقل ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں جانا، اس احتیاط سے نہیں ہوسکتا جو قرآن کے متعلق ہوئ ہے، تو اب ہم قرآن اور حدیث میں فرق کرنے پر مجبور ہیں،ک لیکن اصولاً دونوں یکساں ہیں کیونکہ قرآن خود کہتا ہے "من یطع الرسول افقد اطاع اللہ" ان حالات میں میری دانست میں دونوں یکساں ہیں لیکن ثبوت اور شہادت کی ضرورتوں کے تحت ہم ان میں فرق کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے حضور میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ سوال13: اولیاء اللہ کی قبروں پر جاکر السلام علیکم یا اھل القبور کہنا، فاتحہ پڑھنا اور ان کے طفیل سے خدا سے فضل و کرم کی التجا کرنا یہ امور قبر پرستی میں شامل ہیں یا نہیں؟ جواب: میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کی کوئ اہمیت نہیں ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مزارات کی زیارت فرماتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السلام علیکم یا اھل القبور کہا کرتے تھے، ان کے لیے فاتحہ پڑھتے تھے تو میں اگر کروں تو سنت ہی کی پیروی ہوگی، بدعت اور جدید چیز نہ ہوگی۔ باقی کسی کے طفیل سے اللہ کے فضل و کرم کی التجا کرنا، یہ نیت پر منحصر ہے۔ اگر آپ یہ خیال ظاہر کریں کہ چونکہ میں اس صاحب قبر کو رشوت دے چکا ہوں، اس پر پھول چڑھا چکا ہوں، لہٰذا ان کا فریضہ ہے کہ جو چیز اللہ میاں نہیں چاہتے وہ کرڈالیں، یہ چیز شرک ہوگی۔ سوال14: یتیم بچے کو اس کے دادا کی وراثت سے کیوں محروم کیا گیا۔ وراثت سے محرومی کے پس پشت جو مصلحت کار فرما ہے اس پر روشنی ڈالیے؟ جواب: قانون کا ایک اصول ہوتا ہے اور اس اصول سے بعض وقت اتفاقاً کسی فرد کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تو ایک فرد کے نقصان کی خاطر عام اصول کو بدلا نہیں جاسکتا۔ عام اصول یہی ہے کہ ایک شخص کی وفات پر اس کے فلاں فلاں رشتہ داروں کو ایک حصہ وراثت میں دیا جاتا ہے جو قرآن نے مقرر کردیا ہے۔ اگر اتفاقاً اس قانون کی وجہ سے کسی ایک فرد کو نقصان پہنچتا ہے تو اس کا حل بھی قرآن و حدیث میں بیان کردیا گیا ہے۔ چنانچہ وصیت کا ایک قانون اسلام میں پایا جاتا ہے کہ جس شخص کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملتا تو اسے مرنے والا شخص وصیت کے ذریعے سے کوئ چیز دے دے۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ کسی شخص کے مرنے پر اس کے بیٹے کو حصہ ملے اور پوتے اپنے دور میں حصہ پائیں گے۔ ان کو اس مرنے والے شخص سے یعنی دادا سے حصہ لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایک خاص صورت میں جب اس پوتے کا باپ مرچکا ہے، دادا کے لیے ممکن ہے کہ اپنے مال کا ایک حصہ، وصیت کے ذریعے سے، اس پوتے کو دے دے تاکہ اسلامی قانون کے عام قاعدے کو بدلنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اس انفرادی دشواری، پیچیدگی اور مصیبت کو، جو پوتے کو پیش آنے والی ہے اسے بھی دور کیا جائے۔ یہ ہے فلسفہ اسلامی قانون کا کہ قانون، قانون ہی رہے اور جو استثنائ صورتیں پیش آئیں، ان کا بھی استثنائ حل پیش کیا جائے۔ اختتام __________________
ہمارا اورنگی پیارا اورنگی
|
|
|
|
hamaraorangi | Date: Thursday, 19-Feb-2009, 10:08 AM | Message # 24 |
 Admin
Group: Administrators
Messages: 73
Status: Offline
| یہ تمام کے تمام میں نے اردو محفل فورم سے کاپی کۓ ہیں چونکہ یہ اسلامی معلومات ہیں اس سےلۓ میں نے اجازت نہیں لی اللہ پاک اردو محفل کے تمام دوستوں کو جزاۓ خیر دے خصوصی طور پر جناب خاور بلال صاحب کو جنہوں نے اردو محفل میں یہ پوسٹ کیا ہے۔
ہمارا اورنگی پیارا اورنگی
|
|
|
|